Orhan

Add To collaction

دل سنبھل جا ذرا

دل سنبھل جا ذرا 
از قلم خانزادی 
قسط نمبر16

ہانی ایک بار تم ہاتھ لگ جاو میرے میں تمہیں زندہ نہی چھوڑوں گا۔۔۔حنان ہانی کا نمبر ٹرائی کر رہا تھا۔۔لیکن اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔۔۔آ رہا ہوں میں۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!
اتنی ہوشیار تم ہو نہی جتنی تم بنتی ہو۔۔۔ملک حنان سے پالا پڑا ہے تمہارا اس بار۔۔۔ایسی سزا دوں گا کہ یاد رکھو گی۔۔۔بہت کر لیں تم نے اپنی من مانیاں۔۔۔بہت زندگیاں تباہ کر دیں تم نے۔۔۔۔۔!!!!!!!!
لیکن اب اور نہی۔۔۔اب تمہیں لگام میں ڈالوں گا۔۔۔جو شیرنی بنی پھرتی ہو۔۔۔اب تمہارے دن ختم ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔!!!!!!!!
حیدر بھی گاڑی روک چکا تھا۔۔۔حنان کو گاڑی روکتے دیکھ کر۔۔۔۔وہ ہارن پر ہارن بجا رہا تھا۔۔۔۔حنان نے ہارن کی آواز سنی تو حیدر کی گاڑی دیکھ کر اس نے بھی گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔!!!!!!!!
ارسل اور زوہان دونوں احد کے پاس ہی تھے۔۔۔احد،ارسل،زوہان،حیدر اور حنان۔۔۔یہ پانچوں بچپن کے دوست تھے۔۔۔۔ہانی اور ماہم بھی ان کی ہم کلاس تھیں۔۔۔۔!!!!!!!!!!
بڑے ملک صاحب اور ان کی بیوی دونوں فیصل آباد میں اپنے آبائی گاوں میں ہی رہائش پزیر تھے۔۔۔۔احسن پڑھائی مکمل کرنے باہر کے ملک چلا گیا تھا۔۔۔حیدر اور ماہم دونوں حنان کے گھر پر ہی رہتے تھے۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
حنان کے والد صاحب شہر آ گئے۔۔۔کیونکہ وہ گاوں کی زندگی نہی گزارنا چاہتے تھے۔۔۔وہاں وسائل کی بہت کمی تھی۔۔اور بچوں کی پڑھائی کا بھی مسلہ تھا۔۔۔اسی لیے انہوں نے گاوں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔سانیہ اس وقت چھ سال کی تھی۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!
جب حنان ان کی زندگی میں آیا۔۔۔۔گاوں میں سکول تو تھا۔۔۔مگر ملک صاحب کو وہاں کی پڑھائی پسند نہی آئی۔۔۔کیونکہ وہ خود بھی یو کے سے سٹڈی کر کے آئے تھے۔۔۔۔۔!!!!!!!
اسی لیے ان کو اب گاوں کی زندگی راس نہی آ رہی تھی۔۔۔وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی غرض سے والد صاحب کے گزرنے کے بعد شہر میں آ بسے۔۔۔۔۔!!!!!!!!
لیکن بڑے ملک صاحب کسی صورت اپنا گاوں چھوڑنے پر راضی نہی ہو سکے۔۔۔۔۔لیکن بچوں کو پڑھائی کے لیے شہر بھیج دیا انہوں نے۔۔۔۔اسی طرح احسن انٹر کرنے کے بعد باقی کی پڑھائی مکمل کرنے باہر کے ملک چلا گیا۔۔۔۔!!!!!!!!!
جبکہ حیدر،ماہم،سانیہ،حنان۔۔۔یہ یہی رہ کر پڑھائی کرتے رہے۔۔۔۔احسن ان سب سے زیادہ پڑھاکو تھا۔۔۔اسی لیے اس نے ڈاکٹر بننے کا سوچا۔۔۔۔جبکہ سانیہ، اور ماہم نے بس ماسٹرز کرنے کے بعد پڑھائی ختم کر دی۔۔۔!!!!!!!!
حیدر اور حنان نے بزنس مینیجمنٹ کی ڈگری حاصل کی۔۔۔۔حنان تو اپنے ڈیڈ کے ساتھ تین ماہ پہلے آفس جوائن کر چکا تھا۔۔بزنس مینیج کرنے میں۔۔۔جبکہ حیدر تین ماہ گاوں میں گزارنے چلا گیا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
اس طرح احد اور ارسل،زوہان اور حنان دوست تھے۔۔احد بھی ان کا سکول کے وقت سے دوست تھا۔۔اور یہیں حنان کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔۔۔وہ ہانی میں کافی انٹرسٹڈ تھا۔۔۔۔!!!!!!!
لیکن ہانی اسے لفٹ نہی کرواتی تھی۔۔۔۔پھر اچانک سے ہانی بدل گئی۔۔۔اور ان دونوں کی دوستی ہو گئی۔۔۔یہاں تک کہ احد اپنے دوستوں سے بھی الگ ہو کر رہ گیا۔۔۔۔!!!!!!!!!
ہانی یہ سمجھتی تھی کہ شاید ان تینوں کو پتہ نہی چلے گا کبھی اس کے اور احد کے بارے میں۔۔۔۔اس کے بعد ہانی کو اکثر مختلف جگہوں پر مختلف لڑکوں کے ساتھ دیکھا گیا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
حنان اور ارسل نے احد کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ہانی اس کے لیے ٹھیک نہی ہے۔۔۔لیکن وہ تو الٹا ان سے دوستی ختم کر کے چلا گیا۔۔۔یہ کہتے ہوئے کہ تم لوگ میری ہونے والی بیوی پر الزام تراشی کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
یوں ان کے درمیان تناو بڑھتا گیا۔۔۔۔وہ تینوں جتنا احد کو سمجھانے کی کوشش کرتے وہ ان سے اتنا ہی زیادہ الجھتا جاتا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
پھر ایک دن ہوا یہ کہ ہانی کے ماں باپ آئے ہوئے تھے۔۔۔تو حنان نے سوچا کہ کیوں نا ان سے بات کی جائے۔۔۔تا کہ کسی بہانے یہ رشتہ نہ ہو سکے۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
لیکن جب حنان ان کے کمرے کے باہر پہنچا۔۔۔اور اندر سے آتی آوازیں اس کے کانوں میں پڑیں۔۔۔تو اس کے ہوش اڑ گئے۔۔۔۔!!!!!!!!!!
مام آپ پریشان نا ہو۔۔۔اس احد کا بہت جلدی شکار کریں گے ہم۔۔۔۔وہ باقی دو چمچوں کا کتنا ملا آپ کو۔۔۔میرا حصہ تو بھیجا ہی نہی آپ نے۔۔۔۔ہانی ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
بہت اچھا کام کر رہے ہیں وہ دونوں۔۔۔جب تک یہ سمگلنگ کا دھندا چلتا رہے گا ہمارا کام بنتا رہے گا۔۔۔ان دونوں کا بیس لاکھ ملا ہے۔۔۔۔!!!!!!!
ویسے کمال کا ہنر تیرے ہاتھ میں ہانی۔۔۔کیسے بھولے بھالے لڑکوں کو پیار کے جال میں پھنسا کر ان کو مجنوں بنا دیتی ہو اور پھر ان کو اغوا کر کے۔۔۔اگلی بات وہ بولیں ہی نہی۔۔۔۔دونوں قہقہ لگا کر ہنس پڑیں۔۔۔۔!!!!!!!!!
بس مام۔۔۔آپ سے ہی سیکھا ہے۔۔۔۔اب تک پچیس لڑکے ہی اغوا کروا سکی ہوں میں۔۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ کم ازکم ایک سال میں پچاس لڑکوں کا شکار کروں۔۔۔۔۔ساتھ ہی دونوں کا قہقہ گونجا۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!
حنان کی سمجھ میں ساری بات آ چکی تھی۔۔۔ہانی لڑکوں کو پیار کے جال میں پھنسا کر ان کو اغوا کرواتی۔۔انہیں بیچ دیتیں۔۔۔۔اور پھر ان سے زبردستی سمگلنگ کا کاروبار کرواتی۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
اس سے پہلے کہ حنان کو وہاں کوئی دیکھتا۔۔حنان تیزی سے وہاں سے نکل آیا۔۔۔۔گھر آ کر۔۔۔وہ جلدی سے ارسل اور زوہان کو فون کر کے ان سےملنے چلا گیا۔۔۔اور ساری بات ان کو بتا دی۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
اس کا مطلب وہ احد کے ساتھ بھی وہی کرنے والی ہے حنان۔۔۔ارسل پریشانی سے بولا۔۔۔!!!!!!!
ہاں لگتا تو یہی ہے۔۔۔ہمیں احد کو بچانا ہو گا اسے یہ ساری بات بتانی ہو گی۔۔۔!!!!!!!
لیکن ہم کریں بھی تو کیا کریں۔۔۔احد ہماری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہی ہے۔۔۔زوہان بھی بول پڑا۔۔۔۔!!!!!!
ہم کوشش کرنی تو نہی چھوڑ سکتے نا زوہان۔۔۔ہم۔کل پھر سے بات کریں گے احد سے۔۔۔کل یونیورسٹی میں ہمارا لاسٹ ڈے ہے۔۔۔ہمیں کسی بھی طرح اسے یونیورسٹی میں ہی گھیرنا پڑے گا۔۔۔۔!!!!!!!!
اب یہی حل ہے۔۔اور تو کوئی راستہ نظر نہی آ رہا مجھے۔۔۔۔اس کے گھر جاو تو باہر نہی آتا۔۔۔۔کال کرو تو پک نہی کرتا۔۔۔۔اب اس کے ساتھ زبردستی کرنی پڑے گی ہمیں۔۔۔۔۔تو کل تیار رہنا تم لوگ۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!
اگلے دن ان تینوں نے احد کو زبردستی ایک کمرے میں بند کر کے بٹھایا۔۔۔اور اسے ساری بات بتا دی۔۔۔۔!!!!!!
دیکھو احد ہم تمہارا برا نہی چاہتے۔۔۔بچپن کے دوست ہیں ہم لوگ۔۔۔۔جو کہ رہے ہیں تمہاری بھلائی کے لیے کہ رہے ہیں۔۔۔بات مان لو ہماری۔۔۔اور پیچھا چھوڑ دو اس ہانی کا۔۔۔۔ارسل اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!
بہت ہو گیا تم لوگوں کا۔۔۔اب مجھے جانے دو۔۔۔احد اٹھ کھڑا ہوا جانے کے لیے۔۔۔جس کا مطلب تھا کہ۔۔۔اس پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہی ہوا۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!
زوہان نے آگے بڑھ کر احد کو گریبان سے کھینچتے ہوئے ایک تھپڑ رسید کیا۔۔۔اور احد نے بھی اسے تھپڑ مارا۔۔۔دونوں گتھم گتھا ہو چکے تھے۔۔۔۔!!!!!!!
ارسل اور حنان نے جلدی سے دونوں کو الگ کیا۔۔۔۔آج کے بعد میرے راستے میں نا آنا تم تینوں۔۔۔میرا تم سب سے کوئی رشتہ نہی ہے اب۔۔۔۔۔احد کہتے ہوئے کمرے سے جانے لگا ہی تھا کہ زوہان بول پڑا۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
جا چلا جا یہاں سے۔۔۔ہمیں بھی نہی رکھنا تجھ سے کوئی رشتہ۔۔۔۔ایک لڑکی کے لیے بچپن کے دوست چھوڑ رہا ہے۔۔۔۔بہت پچھتائے کا تو۔۔۔۔۔یاد رکھنا میری بات۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
زوہان کی آواز پر احد رکا۔۔۔۔لیکن پلٹا نہی۔۔۔اور چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
اور ٹھیک ایک ہفتے بعد احد کے لا پتہ ہونے کی خبر ملی حنان کو۔۔۔۔اس کی ماما کا فون آیا حنان کو کہ احد ان کے ساتھ تو نہی ہے۔۔۔کل رات سے گھر نہی آیا۔۔۔!!!!!!!
جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔۔۔ان تینوں نے بہت کوشش کی احد کو ڈھونڈنے کی۔۔۔۔لیکن کچھ پتہ نہی چل سکا۔۔۔۔سب سے حیرت والی بات یہ تھی کہ ہانی اپنے پیرنٹس کے ساتھ ایک ہفتہ پہلے لندن جا چکی تھی۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
لیکن حنان کو یقین تھا کہ یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے۔۔۔۔ایک دن اچانک حنان کو ہانی نے سکائپ پر کال کی۔۔۔تو حنان نے جان بوجھ کر اس کے سامنے احد کا ذکر کیا۔۔۔جس پر ہانی گھبرا گئی۔۔۔۔!!!!!!
حنان کو اس کی گھبراہٹ اور بات کرنے کے انداز سے اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے۔۔۔۔اور پھر دونوں کے درمیان کالز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔اور پھر ایک دن حنان نے اسے پرپوز کر دیا۔۔۔۔!!!!!!!!!
جو ہانی نے خوشی خوشی قبول بھی کر لیا۔۔۔اسے اور کیا چاہیے تھا۔۔۔۔۔ہانی تو پہلے ہی شکار کی تلاش میں رہتی تھی۔۔۔اب شکار خود اس کے پاس آ گیا۔۔۔۔تو کیسے ہاتھ سے جانے دیتی وہ۔۔۔۔۔!!!!!!!
ماہم اور حیدر دونوں گاوں واپس جا چکے تھے۔۔۔حنان کو ان کے جانے کے بعد یہ احساس ہوا کہ اسے ماہم کی عادت سی ہو گئی ہے۔۔۔وہ دن بھر اسے تنگ کرتا رہتا تھا۔۔۔۔۔!!!!!!!
مگر اب وہ اکیلا سا ہو گیا تھا۔۔۔جب وہ ماہم سے بات کر لیتا تو ٹھیک رہتا ورنہ پھر سے وہی حالت ہو جاتی اس کی۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ اسے ماہم سے محبت ہو چکی ہے۔۔۔۔۔!!!!!!!
یہ احساس بہت خوشگوار تھا اس کے لیے۔۔۔ملک صاحب نے اسے آفس جوائین کروا دیا۔۔۔۔وہ پورا دن آفس میں مصروف رہتا لیکن گھر آتے ہی اسے پھر سے ماہم کا خیال آ جاتا۔۔۔۔۔!!!!!!!!
وہ ماہم کو اب اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔لیکن اسے سمجھ نہی آ رہی تھی کہ کیسے بات کرے گھر والوں سے۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
انہی دنوں گھر میں سانیہ اور احسن کی شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔۔۔۔احسن واپس آنے ہی والا تھا کہ۔۔۔شادی میں بس چند دن رہ گئے تھےکہ سانیہ گھر سے بھاگ گئی۔۔۔اور اس نے فہیم سے نکاح کر لیا۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
سانیہ خود تو چلی گئی تھی اپنی نئی زندگی بسانے۔۔۔ماں باپ کی عزت کو روندتے ہوئے۔۔۔۔سارے خاندان کے سامنے اور دنیا کے سامنے زلت و رسوائی کا سامان بنا گئی تھی ان کو۔۔۔۔۔!!!!!!!
ماں باپ کی عزت کو روند کر گھر بسانے والی لڑکیاں کبھی خوش نہی رہتیں۔۔۔۔اور جو آشیانہ دوسروں کی خوشیاں تباہ کر کے بنایا جائے وہ آخر ٹوٹ ہی جاتا ہے۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
سانیہ کی زندگی بھی مشکلات سے بھر چکی تھی۔۔۔اسے عزت نہی رسوائی ہی ملی تھی۔۔۔۔فہیم کے گھر والوں نے اسے اور ان دونوں کے رشتے کو قبول ہی نہی کیا۔۔۔اور ان کو گھر سے نکال دیا گیا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!
ماں باپ کی لاڈلی بیٹی۔۔۔جس نے آج تک کبھی پیسوں کا حساب نہی رکھا تھا۔۔۔اب ایک ایک روپیہ سوچ سوچ کر خرچ کرتی تھی۔۔۔۔شادی کا پہلا سال بہت تنگیوں میں گزارا ان دونوں نے۔۔۔۔۔!!!!!!
پھر فہیم کی انجنیرنگ مکمل ہوئی تو اسے اچھی کمپنی میں جاب مل گئی۔۔۔اور گاڑی بھی۔۔۔سب کچھ اچھا ہونے لگ پڑا۔۔۔۔مگر شادی کو دو سال ہو گئے۔۔۔۔ابھی تک ان کی گود خالی تھی۔۔۔۔۔اب تک اللہ نے ان کو اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا ہے۔۔۔۔۔!!!!!!!
ملک صاحب نے کبھی سانیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہی کی۔۔۔۔جبکہ مسز ملک اکثر چھپ چھپ کر بیٹی کی یاد میں آنسو بہاتی رہتیں۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
ہانی واپس آ چکی تھی پاکستان۔۔۔حنان اس کے ساتھ دھوکا کر رہا تھا۔۔۔۔ہانی کے ساتھ باہر جاتے ہوئے وہ ہمیشہ اپنی گن اپنے پاس رکھتا تھا کہ نا جانے کب یہ حملہ کر دے۔۔۔۔!!!!!
وہ بھی شادی سے چند دن پہلے۔۔۔۔گھر میں قیامت سا سماں تھا۔۔۔۔ایسے میں حنان اپنی خوشیوں کو مکمل فراموش کر چکا تھا۔۔۔۔وہ کبھی سوچ بھی نہی سکتا تھا کہ اس کی بڑی بہن ایسا کرے گی۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
اور اس معاملے کا قصور وار وہ ملک صاحب کو ٹہراتا تھا۔۔۔کہ اگر وہ زبردستی نا کرتے تو ایسا نا ہوتا کبھی بھی۔۔۔۔اور اسی لیے ان کے رشتے کے درمیان تناو بڑھتا چلا گیا۔۔۔۔!!!!
سانیہ کی فہیم سے شادی کے تقریباً چھ ماہ بعد ہی حنان اس تک پہنچ چکا تھا۔۔۔۔وہ اکثر چھپ کر وہاں دور کہیں ان کے گھر کے پاس گاڑی کھڑی کر کے رکتا کہ شاید۔۔۔۔سانیہ کو دیکھ سکے۔۔۔!!!!!!
حنان کو سانیہ تو کبھی نظر نہی آئی۔۔نظر آتی بھی کیسے وہ وہاں ہوتی تو نظر آتی ناں۔۔۔۔ البتہ اسے اکثر منال نظر آتی کسی نا کسی کے ساتھ گھر سے آتے جاتے۔۔۔۔کبھی وہ فہیم کے ساتھ ہوتی۔۔۔۔!!!!!
کبھی اپنے والد کے ساتھ تو کبھی لڑکیوں کے ساتھ۔۔۔۔بعد میں حنان کو پتہ چلا کہ سانیہ تو ہہاں رہتی ہی نہی۔۔۔فہیم نے اسے الگ گھر میں رکھا ہوا ہے۔۔۔۔۔!!!!!
حنان جب جب فہیم کو دیکھتا۔۔۔اس کے دل میں بدلے کی آگ جلتی۔۔۔۔وہ فہیم سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔۔۔مگر کیسے اسے یہ سمجھ نہی آتا تھا۔۔۔!!!!!!!!!!!!
آخر کار ایک سال بعد اس کے زہن میں بدلہ لینے کا زریعہ سمجھ آ ہی گیا۔۔۔۔اور وہ زریعہ تھا منال۔۔۔۔!!!!!!
اور منال کے بابا اسے کالج کے باہر چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔تو حنان پہنچ گیا وہاں۔۔۔اسے اپنے گارڈز کی مدد سے وہاں سے اپنے ساتھ لے آیا۔۔۔اور زبردستی نکاح کر لیا اس کے ساتھ۔۔۔!!!!!
اور نکاح کرنے کے بعد اسے اس کے گھر لے کر گیا۔۔۔تا کہ فہیم کے چہرے پر شکست دیکھ سکے۔۔۔اور اس دن حنان جیت چکا تھا۔۔۔بدلے کی آگ میں وہ ایک معصوم لڑکی کے جزبات سے کھیل گیا تھا۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
وہ منال کو ازیت دینے کی کوشش کرتا لیکن ایسا کر نہی پاتا تھا۔۔۔اگر کبھی اس کو ازیت دے بھی دیتا تو۔۔۔اس سے زیادہ خود ازیت میں مبتلا ہو جاتا۔۔۔۔آہستہ آہستہ وہ منال کے قریب ہوتا چلا گیا۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!
اور اسے اپنی زیادتیوں پر پچھتاوا ہونے لگا۔۔۔لیکن سب سے بڑی رکاوٹ تھی ہانی۔۔۔۔جب تک حنان احد تک نہ پہنچ جاتا۔۔۔تب تک اسے ہانی کو کسی طرح یہاں روک کر رکھنا تھا اپنے گھر میں۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!!
اور پھر ماہم آ گئی۔۔۔۔اور ہانی اور ماہم مل کر حنان کی زندگی میں مشکلات پیدا کرتیں۔۔۔اس سے پہلے ہی حنان ہانی کے بھائی تک پہنچ گیا۔۔۔اور اسے اغوا کروا لیا۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!
جب اس کے پییرنٹس کو پولیس نے گرفتار کیا تو یہ خبر فوراً ہانی تک پہنچ گئی۔۔۔اور اس سے پہلے کہ حنان گھر پہنچتا ہانی ماہم کو ساتھ لیے وہاں سے فرار ہو گئی۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
کچھ دیر ڈرائیو کرنے کے بعد حنان نے گاڑی روک دی۔۔حیدر بھی گاڑی سائیڈ پر روک کر گاڑی سے باہر نکل آیا۔۔۔اب کیا کرنا ہے حنان ہم یہاں کیوں رکے ہیں۔۔۔حیدر گاڑی سے باہر نکلتے ہی بول پڑا۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
یہاں سے آگے ہمیں پیدل جانا پڑے گا۔۔حنان اپنا فون کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔!!!!!!
لیکن ہم جا کہاں رہے ہیں۔۔۔حیدر کو حنان کی کسی بات کی سمجھ نہی آ رہی تھی۔۔۔۔!!!!!!
بس یہ سمجھ لو کہ ہم اپنی منزل کے بہت قریب ہیں۔۔۔اب بنا شور کیے چلتے رہو میرے ساتھ۔۔کہتے ہوئے حنان چل پڑا۔۔۔۔!!!!!!!
دونوں چلتے چلتے ایک پرانی عمارت کے پاس پہنچ گئے۔۔حنان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔اس عمارت کے پچھلی سائیڈ گاڑی کھڑی دیکھ کر۔۔۔۔۔!!!!!!!
حیدر تم یہی رہو گے جب تک میں واپس نہی آ جاتا۔۔۔کہتے ہوئے حنان آگے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔!!!!!!!!
حیدر وہیں دیوار کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔اسے ابھی تک نہی سمجھ آئی حنان کر کیا رہا ہے۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
حنان عمارت کے اندر داخل ہو گیا۔۔۔اور ایک ایک منزل کا جائزہ لینے لگ پڑا چھپ چھپ کر۔۔۔جب حنان چھٹی منزل کی سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو اسے ایک آدمی کی آواز آئی۔۔۔!!!!!!!!!!
وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔۔۔کچھ دیر حنان وہی رکا رہا۔۔۔وہ اس بات کا اندازہ لگا رہا تھا کہ کتنے آدمی ہیں ہانی کے ساتھ۔۔۔۔!!!!!!!!!!
چند پل ہی گزرے ہو گے کہ حنان کے کانوں میں ہانی کی آواز پڑی۔۔۔۔جاو کچھ کھانے کو لے آو۔۔۔صبح کا ناشتہ کیا ہوا ہے۔۔۔اب بھوک سے برا حال ہوا جا رہا ہے۔۔۔۔!!!!!!!!!!
ہانِی کی آواز پر حنان تیزی سے سیڑھیوں سےنیچے اتر کر پانچویں منزل میں چھپ گیا۔۔۔جیسے ہی اسے وہ آدمی سیڑھیاں اترتے دکھائی دیا۔۔۔۔حنان نے جلدی سے حیدر کو فون ملایا۔۔۔۔!!!!!!!
اور اسے جلدی سے وہاں سے ہٹنے کو کہا۔۔۔حیدر گاڑی کے پاس سے ہٹ کر دوسری دیوار کے پیچھے چھپ گیا۔۔۔جیسے ہی اسے گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔۔۔تو وہ تیزی سے اندر کی طرف بڑھا۔۔۔۔!!!!!!!!!!
حنان اب حیدر کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔جیسے ہی حیدر اوپر آیا۔۔۔وہ دونوں اوپر کی طرف بڑھ گئے۔اور اندر داخل ہو گئے۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!
ہانِی کی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں حنان اور حیدر کو سامنے دیکھ کر۔۔۔۔!!!!!!!
وہ تیزی سے اپنے بیگ کی طرف لپکی۔۔۔لیکن اس سے پہلے ہی حنان تیزی سے اس کی طرف بڑھ کر اس کے سر پر گن تان چکا تھا۔۔۔۔ہینڈز اپ۔۔۔۔حنان اس کے سر پر گن رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!!!!!!!
حیدر نے جلدی سے آگے بڑھ کر ماہم کو رسیوں سے آزاد کیا۔۔۔ماہم نے آگے بڑھ کر ہانی کو تھپڑ رسید کیا۔۔لعنت ہے تم جیسی دوست پر۔۔۔مجھے شرم آ رہی ہے خود پر۔۔کہ میں نے تم جیسی گھٹیا لڑکی پر بھروسہ کیا۔۔۔۔!!!!!!!!!
حیدر نے آگے بڑھ کر ماہم کو ہانی سے دور کیا۔۔۔۔ماہم رک جاو۔۔۔اس کو تو پولیس پوچھے گی اب۔۔اس کی ہمت کیسے ہوئی تمہارے ساتھ ایسا کرنے کی۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!
حیدر رسی اٹھاو۔۔۔اور اس کے ہاتھ باندھو۔۔۔حنان نے حیدر سے کہا تو وہ تیزی سے رسی لے کر ہانی کے ہاتھ پیچھے باندھنے لگا۔۔!!!!!!!!!!
ہانِی خونخوار نظروں سے حنان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔یہ مت سمجھنا میں ہار گئی۔۔۔بہت جلد واپس آوں گی میں تم سے بدلہ لینے۔۔۔۔ملک حنان۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!
اس کی بات پر حنان ہنس پڑا۔۔۔۔ہاں ہاں ضرور شوق سے آنا۔۔میں انتظار کروں گا۔۔۔ویل سرپرائز کیسا لگا بے بی کو پوچھوں گی نہی کیسے پہنچا میں تم تک۔۔۔!!!!!!!!
حنان نے آگے بڑھ کر اس کے گلے سے ایچ والا لاکٹ اتار کر ہانی کے سامنے لہرایا۔۔۔۔اور ہنس دیا۔۔یہ گفٹ بہت پیار سے لایا تھا میں تمہارے لیے۔۔کیونکہ مجھے پتہ تھا یہ نوبت آ سکتی ہے۔۔۔۔!!!!!!!!!
اس میں چھوٹی سی لوکیشن ڈیوائس تھی جو میرے فون سے کنکٹیڈ تھی۔۔۔!!!!!!!
ہانی خونخوار نظروں سے حنان کی طرف دیکھتی کبھی تو کبھی اس لاکٹ کی طرف۔۔۔اس کے لالچ نے آج اسے شکست دکھا دی تھی۔۔۔۔وہ سوچ بھی نہی سکتی تھی کہ یہ عام لاکٹ نہی۔۔بلکہ ایک ڈیوائس ہے۔۔۔۔!!!!!!!!!!
اوہ۔۔۔شاک لگا۔۔۔حنان لاکٹ اپنی پاکٹ میں رکھتے ہوئے ہانی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ڈونٹ وری ابھی اور بھی بہت سے شاک لگے گے تمہیں۔۔۔۔چلو تمہیں تھانے کی سیر کروا دوں۔۔۔۔!!!!!!!!
حنان اسے بازو سے کھینچتے ہوئے نیچے کی طرف بڑھا۔۔۔حیدر نے ہانی کا بیگ اٹھا لیا۔۔۔۔اور ماہم کو ساتھ لیے نیچے کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
گاڑی کے پاس پہنچ کر حنان نے دروازہ کھول کر ہانی کو گاڑی میں بٹھایا اور حیدر کی طرف بڑھا۔۔۔تم ماہم کو لے کر گھر پہنچو میں اسے پولیس کے حوالے کر کے گھر آتا ہوں۔۔۔۔۔!!!!!!!
حیدر نے ہانی کا بیگ حنان کی طرف بڑھایا۔۔۔تو ماہم بول پڑی۔۔وہ میرا فون ہے اس میں۔۔۔۔ماہم ہچکچاتے ہوئے بولی۔۔۔وہ حنان سے نظریں نہی ملا پا رہی تھی۔۔۔!!!!!!!
حنان نے بنا اس کی طرف دیکھے بیگ میں سے فون نکال کر ماہم کی طرف بڑھا دیا۔۔۔اور بیگ پچھلی سیٹ پر پھینک کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔۔!!!!!!
جب ماہم اور حیدر گاڑی میں بیٹھ گئے۔۔۔حیدر نے گاڑی واپس موڑی۔۔۔تو حنان نے بھی گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔!!!!!!!
ماہم اور حیدر گھر چلے گئے جب کہ حنان ہانی کو لے کر تھانے پہنچا اور اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔۔۔۔!!!!!!!!
ہانی نے حنان کو آواز دی۔۔۔حنان اس کے پاس گیا تو ہانی ہنس دی۔۔۔حنان کو اس کا ایسی سیچوایشن میں ہنسنا عجیب لگا۔۔۔۔کیا مسلہ ہے اب حنان غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
کچھ نہی کچھ نہی۔۔۔۔جاو گھر جاو۔۔۔ہانی آنکھ دباتے ہوئے بولی۔۔۔تو حنان وہاں سے چل پڑا۔۔۔۔جب کہ لیڈیز کانسٹیبل نے ہانی کو جیل میں بند کر دیا۔۔۔!!!!!!!!
جاو جاو جلدی گھر پہنچو۔۔۔۔ملک حنان گھر پر تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔۔۔کہ کر ہانی قہقہ لگا کر ہنس پڑی۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
حنان نے سب سے پہلے اپنے آدمیوں کو فون کر کے ارسلان کو چھوڑنے کا کہا اور گاڑی ہاسپٹل کی طرف موڑ دی۔۔۔!!!!!!
احد سے ملا اور ارسل اور زوہان کو ہانی کی گرفتاری کی خبر سنائی تو وہ تینوں بہت خوش ہوئے۔۔۔اب وہ تینوں احد کو ساتھ لیے اس کے گھر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔!!!!!!!!!!
احد گھر میں داخل ہوا۔۔۔تو اس کے گھر والے تو جیسے سکتے میں آ گئے اسے دیکھ کر۔۔۔۔اس کی ماما جلدی سے احد کی طرف بڑھیں اور اسے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔!!!!!!!
سب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ماں بیٹے کے اس ملن پر۔۔۔۔احد کے گھر والوں نے حنان کا شکریہ ادا کیا۔۔۔کیونکہ حنان نے بہت محنت کی تھی اس کام کو سر انجام دینے میں۔۔۔اس نے ہار نہی مانی تھی۔۔۔اور آخر کار اپنی منزل تک پہنچ گیا تھا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
حنان ان سب سے مل کر خدا حافظ کہتے ہوئے اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔!!!!!!!
گھر پہنچا تو دادو، مام، بڑی ماما، حیدر،ماہم اور بڑے پاپا۔۔۔سب اسے ٹی وی لاونج میں بیٹھے دکھائی دئیے سوائے منال کے۔۔۔۔!!!!!!!!
حیدر ماہم کو لے کر گھر پہنچ چکا تھا۔۔۔۔شکر ہے کہ گھر میں کسی کو پتہ نہی چلا اس حادثے کا۔۔۔حیدر نے گھر آ کر کہا کہ وہ ماہم کو ساتھ لے کر گیا تھا باہر۔۔۔۔اس لیے کسی نے کوئی سوال ہی نہی کیا۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
حنان دل میں منال کا تصور لیتے ہوئے اوپر کی طرف بڑھا۔۔۔تب ہی مام نے اسے آواز دی۔۔۔حنان لنچ ریڈی ہے بیٹا۔۔۔منال کو بھی لے آو نیچے اور خود بھی آ جاو۔۔۔۔۔!!!!!!!!
حنان مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔کمرے میں گیا تو منال کمرے میں نہی تھی۔۔۔حنان نے سوچا شاید واش روم میں ہو۔۔۔آگے بڑھ کر دیکھا تو واش روم کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔۔!!!!!!!!
پھر حنان سٹڈی روم کی طرف بڑھا۔۔۔لیکن منال وہاں بھی نہی تھی۔۔۔۔منال نیچے بھی نہی تھی اور کمرے میں بھی نہی۔۔۔۔حنان تیزی سے نیچے کی طرف بڑھا۔۔۔۔باہر بھی دیکھ لیا ہر جگہ منال باہر بھی نہی تھی۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
حنان دوبارہ اندر آیا۔۔۔۔۔۔مام۔۔۔منال کہاں ہے۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
حنان کے سوال پر سب نے حیران کن نظروں سے حنان کی طرف دیکھا۔۔۔۔!!!!!
اپنے کمرے میں ہو گی حنان اور کہاں ہو گی۔۔۔تم بھی نا بچوں جیسے سوال پوچھتے ہو۔۔۔مسز ملک مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔آج صبح ناشتہ کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے سے باہر ہی نہی آئی۔۔۔۔۔!!!!!!!
نہی مام۔۔۔منال کمرے میں نہی ہے۔۔۔اور نا ہی باہر میں نے پورے گھر میں دیکھ لیا ہے اس کو۔۔۔۔حنان کی بات پر سب اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔!!!!!!!
ایسا کیسے ہو سکتا بیٹا ٹھیک سے دیکھو اوپر ہی ہو گی منال۔۔۔شاید مزاق کر رہی ہو تمہارے ساتھ۔۔۔جاو میرا بیٹا دوبارہ دیکھو کمرے میں۔۔۔۔ہم سب بھی نیچے دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
بڑے پاپا کی بات پر حنان دوبارہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔لیکن اسے منال کہی نظر نہی آئی۔منال یہاں ہوتی تو نظر آتی نا۔۔۔۔۔!!!!!!!
حنان کی نظر ٹیبل پر پڑی۔۔۔منال کا فون اور اس کے ساتھ ایک پیج پڑا تھا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
حنان نے پیج اٹھایا اور پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔!!!!!
مِیں جانتی ہوں۔میں جو کرنے جا رہی ہوں غلط ہے۔۔لیکن میں خود غرض نہی بن سکتی۔۔۔آپ کی خوشی مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔۔۔آپ نے مجھ سے نکاح  میرے بھائی سے بدلہ لینے کے لیے کیا۔۔مجھے اپنے ساتھ رکھنا آپ کی مجبوری بن چکا ہے۔۔آئی ایم سوری میرے بھائی کی وجہ سے آپ کی زندگی میں مشکلات آئیں۔۔۔ان کی طرف سے میں معافی مانگتی ہوں۔ہو سکے تو میرے بھائی اور اپنی بہن کو معاف کر دینا آپ۔۔۔۔اور اپنی خوشیوں کو پھر سے آباد کر لینا آپ۔۔۔۔اپنی محبت کو حاصل کر کے۔۔۔ماہم سے شادی کر لینا آپ۔۔۔میری وجہ سے آپ کی محبت آپ سے دور ہوئی۔۔۔شاید مجھے کبھی پتہ نہی چلتا اگر ہانی مجھے نہی بتاتی۔۔۔اگر مجھے وہ یہ ویڈیو نا دکھاتی تو۔۔۔۔میں نہی چاہتی آپ میرے ساتھ ساری زندگی مجبور بن کر گزار دیں۔۔۔آپ کا ہارنا مجھے پسند نہی۔۔۔اسی لیے خود کو ہار رہی ہوں میں۔۔۔۔۔۔ہو سکے تو معاف کر دینا آپ مجھے۔۔آپ کی منال۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!
سارا پیج پڑھ کر حنان نے جلدی سے فون اٹھایا۔۔۔اس پر جو ویڈیو سامنےچل رہی تھی۔۔۔حنان کو لگا جیسے اس میں جان ہی نہی رہی۔۔۔فون اس کے ہاتھ سے نیچے گر گیا۔۔۔وہ لڑکھراتے ہوئے زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔۔نہی منال تم مجھے چھوڑ کر نہی جا سکتی۔میں ختم کر دوں گا سب کچھ۔۔ حنان نے شیشے کا ٹیبل اٹھا کر غصے سے دیوار میں دے مارا۔۔۔ہر طرف شیشہ بکھر گیا۔۔۔۔وہ پیج اور فون اٹھاتے ہوئے نیچے کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔!!!!!!!!

   1
0 Comments